ایک دن جبرئیل میرے باس آیا اور تھوڑا کافور بہشت واسطے حنوط کے لایا
(۱۷۳۲ ، کربل کتھا ، ۷۹)
غسل دیا اور پھر کفن نکالا اور حنوط ملا اور نعش اٹھا کر کعبہ لے گئے
(۱۸۴۵ ، احوال الانبیا ، ۱ : ۱۱۷)
مرتے وقت وصیت کی کہ کفن میں حنوط ملا جائے تو عرق مبارک کے ساتھ ملا جائے
(۱۹۱۴ ، سیرۃ النبی ، ۲ : ۳۸۶)
مصریوں کی رسم کے موافق سکندر کی حنوط آلودہ نعش محو آرام تھی
(۱۹۱۰ ، معرکۂ مذہب و سائنس ، ۲۴)
حنوط کی عمدگی کی وجہ سے مردوں کے سر کے بال اور ٹھوڑی تک محفوظ و سالم تھیں
(۱۹۷۹ ، سرگزشت حیات (ترجمہ) ، ۱۳۰)
ان کی ہدایت تھی کہ جب وہ میں تو یہ تھیلی ان کے حنوط (سامان تجہیز) میں شامل کی جائے
(۱۹۶۹ ، اندلس تاریخ ادب ، ۸۴)