وہیں شہ باندھ چلغد ہور کمر بند بند علی بند سج
کھڑک لے ہت چڑیا تازی ہون تے صبح اچپل کا
مہندی لگا کے پہنا علی بند یار نے
باندھے ہیں کس بہانے سے دزدِِ حنا کے ہاتھ
ہاتھوں میں علی بند یعنی سُمرنیں پہنتی تھیں .
(۱۹۵۶ ، بیگمات اودھ ، ۸۹) .
تیسرا حملہ علی بند ، تھاتھ پر کھڑا ہو کر طمانچہ اور کمر اور سر مارے .
(۱۸۹۸ ، آئین حرب و قوانین ضرب ، ۱۱) .
خیالِ زلف نجھ رسا کا صنم
عشاقاں کے دل کا علی بند ہے
بھر علی بند پنہایا پئے حفظِ اعغسا
کر دیا ہاتھ کو پابند طرحداری کا
یہ سن کے کڑے بانوؓ نے اصغرؓ کے اتارے
ہیگل بی علی بند بھی تعویذ بھی سارے
گلے پڑ کر کبھو تو آشنا ہوں
مرے تسے کا نب کرلے علی بند
میداں سے رخ پھرائے ہونے تھی ہر ایک صف
ڈھالیں نو اس طرف تھیں علی بند اس طرف
غیظ میں آکر جھٹکا جو دیتے ہیں تو علی بند سپر کا پشت پر جا جھولا .
(۱۹۰۲ ، آف٘تابِ شجاعت ، ۱ : ۱۰۰۰۰) .