پیوں کیا جام مے اغیار بھی بیٹھے ہیں محفل میں
مری آنکھوں میں ان کو دیکھتے ہی خون اتر آیا
قتل کو کس کے چڑھائی تیغ تو نے سان پر
اترا آنکھوں میں جو زخموں کی مرے خوں دیکھ کر
چلنے پھرنے کے قابل ہونا تھا کہ بچوں کو دیکھ دیکھ کر آنکھوں میں خون اترنے لگا.
( ۱۹۳۶، راشدالخیری ، حیات صالحہ ، ۱۴۷)