رقیباں اپنے تار و پود میانے ہلحے غم سیتی
خدایا ان کے بستر کوں نہ کر ہرگز کدھیں گسترد
کیا رگ گل سے ہے میرے رخت تن کا تار و پود
جب بہار آئی گریباں پارا پارا ہو گیا
(۱۸۷۶، بیاض سحر ، نواب علی خان ، ۸)
ہے میری جرأت سے مشت خاک میں ذوقِ نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو
جس سلطنت کے کل تار و پود غیر ملک اور غیر مذہب کے لوگوں کے ہاتھ میں ہوں اس ملک کا خدا ہی حافظ ہی حافظ و ناصر ہو سکتا ہے .
(۱۸۹۳ ، بست سالہ عہد حکومت ،۲۶۵)
اف : بکھرنا ، بکھیرنا ، بُننا .
-