جو اُن سے بہت ربط و ضبط رکھتے تھے اُن کو بھی کبھی اُن کی رِیا کاری میں شبہ نہیں ہوا.
(۱۸۷۰ ، خطباتِ احمدیہ ، ۲۲ ).
یا تو مُجھ سے وہ ربط و ضبط تھا کی خُدا کی پناہ یا ایسے اُکھڑے کہ پِھر کر بھی نہ پُوچھا.
( ۱۹۴۷ ، فرحت ، مضامین ، ۷ : ۵۰ ).
انھوں نے زندگی بھر نہ امراء سے ربط ضبط بڑھایا ، نہ اُن سے فیض پانےکی کوشش کی.
(۱۹۸۴ ، سراج اورنگ آبادی ، ۶۹ ).
وہ ربط و ضبط جو ہم رئیس زادوں کا تھا اب کہاں.
( ۱۸۵۸ ، خطوطِ غالب ، ۱۴۸ )
اس ربط و ضبط کے ساتھ کیونکر چل رہا ہے.
(۱۹۰۶ ، الحقوق و الفرائض ، ۱ : ۱۷).
سندھی زبان اس باہمی ربط وضبط کا چیتا جاگتا ثبوت ہے.
( ۱۹۸۴ ، سندھ اور نگاہِ قدر شناس ، ۱۲۰ ).