اس استاد یگانہ ہاں دیدۂ زمانہ نے مجھ کو شریف زادہ جان کے عزیز کیا .
( ۱۸۴۴ ، مفید الاجسام ، ۴ ) .
ایک ثمر تر و تازہ بالائے شاخ سے گرا ، بادشاہ نے خاک سے اوس کو دامن میں اٹھا لیا اور پسر کی طرح عزیز کیا .
( ۱۸۴۶ ، قصّہ اگر گل ، ۵ ) .
لیں گے صلہ میں خلد ترے نورِ عین سے
آنسو عزیز وہ نہ کریں گے حسین سے
میں اگر تم سے کسی چیز کو عزیز کروں تو ہزار لعنت مجھ پر .
( ۱۹۱۸ ، مکتوب شاہ عظیم آبادی ( اردو ، ۴۲ ، ۲ : ۵۶ ) ) .
راہ گیروں نے اوازے توازے کسے ، ابے نانی سے چھچڑا عزیز کرتے تجھے شرم نہیں آتی ، کیوں بیٹا نانی کو بھی بے ہڈی کا گوشت نہ دیا .
(۱۹۵۹ ، محمد علی ردولوی ، گناہ کا خوف ، ۱۰۸ ) .
اللہ تعالیٰ تم دونوں کی پرا گندگی کو دور کرے اور تمہاری کوشش عزیز کرے
( ۱۸۳۹ ، رفاہ المسلمین ، ۵۵ ) .