ہے بجا گر ہوئے غزل خواں مثلِ بلبل دل مرا
نو بہارِ گلشنِ دیدار کوں دیکھا نہ تھا
غزل اک عاشقانہ اور بھی پھر اوس زمین میں نو
ہر اہلِ درد ہے مشتاق جرات تجھ غزل خواں کا
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
پھر بادِ بہار آئی ، اقبال غزلخواں ہو
غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو
دل قفس میں بھی غزل خواں ہے بیادِ جاناں
غم جاں بھی غمِ جاناں ہے بیادِ جاناں
میں اس طرح رقصاں اور غزلخواں عالم بالا کے اس کیمیا گر تک میں اس طرح رقصاں اور غزلخواں عالم بالا کے اس کیمیا گر تک پہنچ جاؤں.
(۱۹۸۷ ، اک محشر خیال ، ۴۵)
فکرِ جمیل خوابِ پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے جو غزلخواں ہے آج کل
غزلخواں الگ ٹھہری داں ہوں جدا
کہیں نکٹہ ہو اور کہیں دادرا