۱. (i) اچھی عادت یا خصلت ، وصف ، صفت ، جوہر ، خوبی ، کمال ؛ مدح و ثنا ، توصیف و تعریف.
انصاف کے دیکھ تج میں گن تقوا گن کا پادکن
کہتا ہوں راسک راس سن جم راج کر اے راج توں
(۱۶۷۸ ، غواصی ، ک ، ۷۴)
ان انکھن ممیں تین گن ہیں ، چغل ہیں ، بے وفا ہیں ، باوفا ہیں.
(۱۷۴۲ ، قصۂ مہر افروز و دلبر ، ۱۱۹)
زنِ پنجاہ اور چہارم سن
خوش سلیقہ ہیں اس میں سیکڑوں گن
(۱۸۶۰ ، مثنوی بحر مختلف ، ۲۱)
الہٰی مری عادتوں کو بدل دے
وہ گُن دے کہ اپنا بھلا گر سکوں میں
(۱۹۱۱ ، نذرخدا ، ۹۶)
عورت کا تو یہ گُن ہے سدا سے مشہور ہر طرح کی تنگی بھی اٹھالے گی ، مگر چپ چاپ کچھ بچا کے رکھے گی ضرور.
(۱۹۷۸ ، گھر آنگن ، ۳۱)
(ii) نیکی ، بھلائی ، اعمالِ نیک.
نام جس کا رہ گیا کچھ اس کا گُن باقی رہا
ورنہ جو یاں سے گیا ساتھ اس کے اس کا گُن گیا
(۱۸۵۴ ، کلیات ظفر ، ۳ : ۴)
۲. اثر ، تاثیر
(فرہنگ آصفیہ ؛ علمی اردو لغت)
۳. عمل ، کام
ہوئے ختم اس پر نبوت کے گُن
بجے طبل اس کا قیامت لگن
(۱۶۳۹ ، طوطی نامہ ، غواصی ، ۴)
سلیم بڑے افسوس کی بات ہے کہ تو ایسا پیارا لڑکا اور گن تیرے ایسے خراب.
(۱۸۷۷ ، توبۃ النصوح ، ۹۱)
ان گُنوں پر نجات کی امید
بیخود روسیاہ کی کہنا
(۱۹۰۵ ، گفتاربیخود ، ۵۴)
غیر قومیں جتنا بھی اعتراض کریں کم ہے کیونکہ وہی کہاوت ہے اونچی دکان پھیکا پکوان مسلمانوں کی دھاک تو اتنی گُن دیکھو تو خاک بھی نہیں.
(۱۹۱۷ ، بیوی کی تعلیم ، ۱۳۶)
۴. عقل ، سمجھ ، ذاتی وصف ، عمل.
آدمی کی جو کچھ عزت آبرو ہوتی ہے نفع ہوتا ہے سب اپنے گُنوں سے
(۱۹۱۵ ، سجاد حسین ، طرح دار لونڈی ، ۲۰۰)
۵. علم و ہنر ، فن.
گوالیر کے چاتراں ، گن کے گراں ، انوں بھی بات کوں کھولے ہیں ، یوں بولے ہیں.
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۱).
جس آن منے نہ اِن نہ اُن تھا
ناگیان نہ گرب تھا نہ گُن تھا
(۱۷۰۰ ، من لگن ، ۱۱)
اسی میں سے ایک بید ہے کہ سارے گنوں کے بھید اسی سے کھلتے ہیں.
(۱۸۰۵ ، آرائش محفل ، افسوس ، ۳۶)
گوروں میں ایک بات تھی یہ گُن کی قدر کرتے تھے
(۱۹۸۸ ، نشیب ، ۳۸۲)
۶. (بُرے معنوں میں) کرتوت ، لچھن.
وو ناری تھی کیسی سو کیوں اوس کے گُن
سنے گی تو کہتا ہوں دھر کان سُن
(۱۶۳۹ ، طوطی نامہ ، غواصی ، ۱۵۷)
ہاتھ اپنے ان گنوں سے اٹھاؤ اجی سُنا
دے بیٹھے بددعا نہ تمھیں کوئی جلا بُھنا
(۱۸۱۸ ، اظفری ، د ، ۲۴)
چکما بازی میں طاق ، جعل سازی میں شہرۂ آفاق سب گنوں پورے.
(۱۸۸۷ ، جام سرشار ، ۵۶)
یہ گن اور لچھن خالی جانے والی تھوڑے ہی رہیں.
(۱۹۱۸ ، سراب مغرب ، ۴)
آخر اپنے ساتھ کبھی تو اک بے مہر مروت بھی
اپنے سارے نام بھلا کر ، کبھی خود اپنے گُن و گِنو
(۱۹۶۵ ، لوح دل (کلیات مجید امجد ، ۳۱۲))
۷. احسان ، منت ، مہربانی ، نوازش ، عنایت ، کرم.
ظاہر ہیں یوں تو سب پر ترے گُن
لیکن نہ پایا تیرا سر و بُن
(۱۹۱۱ ، کلیات اسمعیل ، ۲۶)
۸. (i) نفع ، فائدہ.
ہم فل نہ دیں گے ہنس کر بولا یہ کیا سخن ہے
ہم نے کہا کہ حضرت اس نے کہا کہ گُن ہے
(۱۸۳۰، نظیر ، ک ، ۱۸۲)
(ii) نتیجہ ، پھل
(فرہنگ آصفیہ)
۹. (i) موٹا رسّا جس سے تاؤ کو بہاؤ کے بر خلاف کھینچ کر لے جاتے ہیں.
تم نے نیہہ کی ناؤ کا گن ہاتھ میں لے کراس کو ...سمندر میں چھوڑ دیا.
(۱۸۰۱ ، مادھونل اور کام کندلا ، ۴۴)
بحرِ غم میں اپنی کشتی کی تباہی کیوں نہ ہو
کب سے گُن ٹوٹا پڑا ہے بادباں بیکار ہے
(۱۸۹۱ ، اشک (علی حسن) ، معیار نظم ، ۱۹۸)
(ii) پھانسی دینے کی رسّی جو ڈھائی ہاتھ کی ہوتی ہے ؛ کمان کا چلّا ، کمان کی تان٘ت.
(فرہنگ آصفیہ).
۱۰. علم ، عرفان ، فضیلت ، لیاقت.
گُن یعنی علم و ہنر اور آچار یعنی کام اور چال چلن سے آدمی کا امتحان ہوتا ہے.
(۱۸۸۶ ، لال چندرکا ، ۱۴)
ہوئے پڑھ کے نچنت تو عہدہ ملا
ہوا گیان کا گُن کا جو شہر میں نام
(۱۹۲۷ ، سریلے بول ، ۵۲)
۱۱. (ریاضی) ضرب نیز حاصلِ ضرب ، دُگنا (مرکبات میں)
(ماخوذ : جامع اللغات ؛ پلیٹس).
۱۲. (ہندسہ) قوس کا وتر
(فرہنگ آصفیہ).
۱۳(i) (فلسفۂ ہنود) خلقت یا تخلیق عالم کے تین بنیادی اجزا میں سے کوئی جوہر، حرکت اور جمود یا مادہ)
ازل میں تینوں گن برابر برابر آپس میں ملے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے اثر کو زائل کرتا تھا.
(۱۹۳۱ ، ارتقا ، ۵)
(ii) (فلسفہ) کیف ، وہ عرض جو بذاتہ تقسیم قبول نہ کرے (جیسے سیاہی ، سفیدی ، نشہ ، خمار).
فلسفہ کی اس شاخ میں سات محمولات مذکور ہیں جن پر تمام فن کا انحصار ہے...(۱) دَرَب (مادہ) (۲) گُن (کیف)... (۷) اَبَہاؤ (سلب).
(۱۹۳۹ ، آئین اکبری (ترجمہ) ، ۲ : ۱۲۷)
۱۴. سبب ، باعث ، کارن.
انہیں گنوں پے کہتی تھیں کہ میں پکاؤں گی.
(۱۹۱۱ ، قصہ مہر افروز ، ۷)
۱۵. (فلسفہ) عرض ، قائم بالغیر
(جامع اللغات ؛ فرہنگ آصفیہ)
۱۶. رسّی ، دھاگا ؛ ساز کا دھاگا یا تار ؛ کسی کام کا غیر ضروری یا چھوٹا حصہ ؛ ذیادتی ؛ کمی (بیماری وغیرہ کی) ؛ عنصروں یا اشیأ کی خاصیت ؛ بار ، مرتبہ ؛ نقشہ ، وضع ، روپ ؛ حواس ؛ حواس خمسہ میں سے کوئی ایک ؛ اعراب کی پہلی آواز ؛ بہاردی ، شجاعت
(پلیٹس ؛ فرہنگ آصفیہ).
[ پ : # س # ]
اہم اطلاع
اردو لغت بائیس ہزار صفحوں پر مشتمل ، دو لاکھ چونسٹھ ہزار الفاظ کا ذخیرہ ہے . اسے اردو زبان کے جیّد اساتذہ نے 52 سال کی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے .
زیر نظر ویب سائٹ انسانی کاوش ہے لہذہ اغلاط کے امکانات سے مبرا نہيں ، آپ سے التماس ہے کہ اغلاط کی نشان دہی میں ہماری معاونت فرمائیں .
نشان دہی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر رابطہ کے ان باکس میں اپنی رائے سے آگاہ کریں .