چمکتی ہے سر مجنوں پہ بجلی سنگ باراں سے
لگے گی ابر رحمت کی جھڑی اب چشمِ گریاں سے
ملک میں علم و ہنر وہ اس طرح برسا گئے
ابر رحمت جس طرح کھیتی پہ برسے ٹوٹ کر
جب دو ابر رحمت اس جگ پر ہوا ہے فیض بار
شیعیاں کے تئیں اتھا وہ دن مگر بہبود کا
ابر رحمت نے تو سو دفتر عصیاں دھوئے
سامنے اس کے مرا نامۂ اعمال ہے کیا
ڈپٹی کمشنر سیتا پور اپنے اخلاقی اوصاف سے ڈپوٹیشن کے لیے . . . ابرِ رحمت تھے .
( ۱۹۳۶ ، ریاض ، نشر ریاضی ، ۲۱۳ )