عاشقوں کو کیوں نہ شادی مرگ ہو تیرا وصال
عید اگر دیکھے ترے مکھڑے کوں تو قربان جا
بادشاہ کو ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ شاید شادی مرگ ہوجائے .
(۱۸۰۲، باغ و بہار، ۲۳۹) .
ہے یہ کھٹکا دیکھ کر گل کو نہ شادی مرگ ہو
جب قفس سے چھوٹ کر گلشن میں بلبل جائیگی
جانِ عاشق نثارِ دوست ہوئی
شادی مرگ کا بہانہ ہوا
اور شادی مرگ کے حادثے ایسے ہی واقعات کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں .
( ۱۹۸۶، جوالا مکھ ، ۱۷۶ ) .
یہ تھا نزدیک جی کھووے زلیخا
کہ شادی مرگ پھر ہووے زلیخا
چمن میں دہر کے خوش ہو کے جو ہنسا ووہیں
برنگِ گل اسے گردوں نے شادی مرگ کیا
اس وقت یہ عالم ہوا کہ شادی مرگ ہوجاؤں .
( ۱۸۰۲، باغ و بہار ، ۴۴ ) .
عابد حسین آٹھویں دن نوکر ہوجانے کی خوشخبری سن کر قریب تھا کہ شادی مرگ ہوجاتے .
(۱۹۰۰، شریف زادہ ، ۳۴ ) .
شاعر کہتا ہے ... جو تمنا کی تھی وہ آج شب وصل میں دعاے بد بن کر میرے آگے آئی کہ میں فرط شوق سے شادی مرگ ہوگیا .
(۱۹۷۸، فنون ، لاہور، نومبر، دسمبر ، ۱۵۰) .