جگ کے ادا شناساں ہے جن کی فکرعالی
تجھ قد کوں دیکھ بولے پر نازہے سراپا
قاتل بھی لوٹنے پہ مرے لوٹنے لگا
شاید ادا شناس ہے غم آشنا نہیں
ادا شناس کی اپنے ادا سمجھتے ہیں
کہ بے کہے وہ مرا مدعا سمجھتے ہیں
سلطان کیادا شناسی اور مزاج دانی کو بھی نباہ دیا.
( ۱۹۴۶، شیرانی ، مقالات ، ۲۱)