کیا عشق مجنوں نے دیوانگی
جو رستم نے چلتی ہے مردانگی
اری یہ عشق ہے ہے کیا بلا ہے
کہ جس کی آگ سیں تن من جلا ہے
عشق و محبت کیا جانوں میں لیکن اِتنا جانوں ہوں
اندر ہی اندر سینے میں میرے دل کو کوئی کھاتا ہے
آپ کو بھی معلوم ہو کہ عشق کیا چیز ہے راتیں مجھ پر تڑپ تڑپ کے کٹتی ہیں آب و دانہ ترک ہوگیا.
(۱۹۰۲ ، طلسم نوخیز جمشیدی ، ۳: ۳۱۲)
ناز برداری کوئی آساں نہیں
میں نے ناحق عشق کا دعویٰ کیا
۲. (تصوّف) حُبّ مفرط اور کششِ معشوق اور حُبِّ معشوق اور مرتبۂ وحدت کو کہتے ہیں اس کے پانچ درجے ہیں : درجہ اوّل فقدانِ دل یعنی دل کا گُم کرنا ، درجۂ دوم تاسف کہ جس میں عاشق پیدل بغیر معشوق کے ہر وقت اپنی زندگی سے متاسف ہوتا ہے ، درجۂ سوم وجد اس کی وجہ سے عاشق کو کسی جگہ اور کسی وقت آرام اور فرار نصیب ہی نہیں ہوتا، درجۂ چہارم بے صبری ، درجۂ پنجم صیانت ، عاشق اس درجے میں پہنچ کر دیوانہ ہوجاتا ہے ، بجز معشوق کے اور کسی کی یاد نہیں ہوتی ، عشقِ حقیقی
(مصباح التعرف ، ۱۷۶)
ہوا جو عشقِ ثنائے ابوتراب مجھے
خدا نے کر دیا ذرّے سے آفتاب مجھے
یاں غش ہیں شوقِ طوف میں یارانِ کعبہ کو
اے نامہ پر تو کہیو یہ پیغام اور عشق