ماں باپ لڑکے لڑکی کی کچھ پیش نہیں جانے دیتے وہ آنکھ بند کرکے انھیں کنوئیں میں دھکیل دیتے ہیں.
( ۱۹۰۷ ، مقدمات عبدالحق ، ۲ : ۱۹۷ )
ایسے لڑکے عموماً پوشیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان سے شادی کرنا لڑکی کو کنوئیں میں پھینک دینے کے برابر ہوتا ہے.
( ۱۹۲۱ ، اولاد کی شادی ، ۱۷ )
یہ سب مُن٘ھ کی باتیں تھیں ، ورنہ ممکن تھا کہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو کنوئیں میں ڈھکیلنے پر راضی ہو جاتا.
( ۱۹۲۹ ، ناٹک کتھا ، ۳۶ )