مخلصی ہور خدمت گاری کا وقت ہے ، دل داشتی ہور دوست داری کا وقت ہے.
(۱۶۳۵، سب رس، ۴۱).
کیوں لگائی لگن مرے دل کوں
گر نہ اس دل میں دوستداری تھی
کیوں مری غمخوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال؟
دشمنی اپنی تھی، میری دوستداری ہائے ہائے
حیف مجھ کمبخت کی الفت نہ راس آئی تجھے
خاک میں مِل جائے میری دوستداری ہائے ہائے
دوست داری اور انسان دوستی کو میرا مسلک بنایا.
(۱۹۸۴، تنقید و تفہیم، ۷).