ہوا ہے تار نفس رشتۂ پرِ پرواز
ہمیں تو زندگی ، قیدِ فرنگ ہے صیاد
کس نازنیں کو دی ہے خدا نے یہ نازکی
آئینہ عکسِ یار کو قیدِ فرنگ ہے
برنگِ حسرت ، مثالِ ارماں جو آگیا یاں سے پھر نہ نکلا
رہے گا سینے میں تیر تیرا اسیرِ قیدِ فرنگ ہو کر
دس دینار دے کر مجھے قیدِ فرنگ سے چھڑایا.
( ۱۹۳۰ ، اُردو گلستان ، ۹۲)