حسن کو ں نیں چھوڑے جو پھرے بازار سے بازار ، حسن کوں قید کیے ہیں ٹھارے ٹھار.
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۸۱) .
یعنی منگے بولنے کوں یو بھید
کرنے کوں قلم میں قید خورشید
زندگی کوں رنگوں میں قید کر نہیں سکتے
اس غزالِ وحشی کو صید کر نہیں سکتے
یہ نغمہ اس کے کان اچھی طرح قید بھی نہیں کر پائے تھے.
(۱۹۵۴ ، شاید کہ بہار آئی ، ۱۶۸) .
اُلفت میں آپ کرتے ہیں جوروجفا کی قید
میرے لیے لگاتے ہیں اس میں وفا کی قید