اس میں سے دوسرے کو ہزار بعوض پندرہ سو کے ایک میعاد پر دے ۔
(۱۸۶۶ ، تہذیب الایمان (ترجمہ) ، ۳۹۵)
ہنڈوی میں ۱۲ دن کی میعاد تھی ۔
(۱۸۸۰ ، آب حیات ، ۵۰۸)
(جب وہ میعاد آجاوے گی تو) وہ عذاب ان پر دفعتہ آپہونچے گا ۔
(۱۹۷۱ ، معارف القرآن ، ۶ : ۶۹۰)
دن بڑھائے قید کی میعاد میں صیاد نے
شکر اﷲ کچھ تو رنج بے پر و بالی گھٹا
اُس نے قیامت کی ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے ۔
(۱۹۰۶ ، الحقوق والفرائض ، ۱ : ۱۱)
اگر پوچھے ُتو مجھ سے اُس کی میعاد
تو ہے چالیس دن تک اُس کی تعداد
ہر دس سال بعد اس میعاد میں توسیع کردی جاتی ہے ۔
(۱۹۹۵ ، قومی زبان ، کراچی ، جولائی ، ۳)
حسرت آزادی کی پوچھے کوئی اس کے دل سے
جس گرفتارِ قفس کی کوئی میعاد نہ ہو
جیتے جی بند محبت سے رہائی ہے محال
زندگی کے دن گنے جاتے ہیں اس میعاد میں
کٹائیوں کا کام ۔۔۔۔۔ انجام پانے کے لیے چند سالوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے جس کو اصطلاح میں میعاد سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
(۱۹۲۳ ، تربیت جنگلات ، ۱۱۳)