یاں سے اڑیے بسان طائر رنگ
بے پر و بال بال و پر کیجے
کیوں نہ وہ کشتی ہو پراں آب پر
دے تمنا جس کو ہر دم بال و پر
دام اس میں بے خطا اس میں نفس بے قصور
شوق پابندی نہاں خود میرے بال و پر میں ہے
نظم الفاظ میں اگر بال و پر کی کمی رہ جاتی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے شعر میں کونسی بات کی کسر رہ گئی.
( ۱۸۹۳ ، مقدمۂ شعر و شاعری ، ۵۱ )