ہم اسیروں نے نکالے ہیں قفس میں بال و پر
کس کو کہتے ہیں خزاں اور کس کو کہتے ہیں بہار
تجھ سے تو لاکھوں دیکھے بھالے ہیں
بال و پر سحر میں نکالے ہیں
حکومت کی نوازش سے اس زبان نے خوب بال و پر نکالے ہیں.
( ۱۹۴۳ ، مقالات گارسان دتاسی ( ترجمہ ) ، ۲ : ۱۴۹ )
گلی میں اس پری رو کی کیا ہے عزم اڑنے کا
نکالا مرغ دل نے بال و پر آہستہ آہستہ