موتیوں سے جو بھری مانگ وہ دیکھے اوس کی
سیر سے تاروں بھری رات کی جی جائے ہٹ
بھری وہ موتیوں سے مانگ اوسکی
شبِ ہکدا میں رشکِ کہکشاں ہے
ہر ایک شب نذر کہکشاں دے کرے فلک پیشکش ستارے
بھرو جو تم مانگ موتیوں سے اگر تم افشاں چنو جبیں پر
آتے انھیں دیکھ لے تو مانگ بھرے
چٹکی میں لیے بیٹھی ہے کب سے سیندور
وہ آیا تو - بھائی کو نوکر کروا دے گا
اور بہن کی مانگ بھرے گا
( ۱۹۷۵ ، نظمانے ، ۸۷ )