کس کی ہے بختاوری پہنے کنواری چوڑیاں
رائے میناں کی جیا مجھ کو پنہاری چوڑیاں
ترش ہوکر کہا ، بیٹا سر پر دوپٹہ ڈال لو ، ننگے سر چوڑی نہ پہنو.
( ۱۸۸۰ ، فسانۂ آزاد ، ۲ : ۳۲۵ )
دلی کی عورتیں لاکھ کی چوڑیاں بڑے شوق سے پہنتی تھیں.
( ۱۹۶۲ ، ساقی ، کراچی ، جولائی ، ۴۶ )
کچھ نہیں ہوسکتا تو بلا سے چوڑیاں ہی پہن لو ، بیوی اپنے نکھٹو میاں سے کہا کرتی ہے.
( ۱۸۸۶ ، مخزن المحاورات ، ۴۱۸ )
اگر تم کو کچھ شدبد ہوتی تو کیوں یہ خرابی ہوتی ، بس تم چوڑیاں پہن کے بیٹھو.
( ۱۹۱۱ ، قصۂ مہر افروز ، ۷۰ )
اس نے جیٹھ کی چوڑیاں پہن لی ہیں.
( ۱۸۸۶ ، مخزن المحاورات ،۴۱۸ )
دیور پر چوڑیاں پہن لیں.
( ۱۹۲۶ ، نوراللغات ، ۲ : ۵۴۷ )