گرکہے گی مجھ سے کچھ منہ پھوڑ کر باجی تو پھر
ٹھنڈی کرڈالوں گی میں ہاتھوںکی ساری چوڑیاں
اٹھ چکے پھول شہیدوں کے بس اب سوگ نہ رکھ
سبز چوڑی کوتوکر حور شمائل ٹھنڈا
نہ سمجھا تھا کہ ان طوقوں میں پھرمجھ کو پھنساؤگے
کروگے چوڑیاں ٹھنڈی تم آکر میرے مدفن پر
بہو! ایک مسلمان نے تیری مانگ کا سیندور چھینا اور تیری چوڑیاں ٹھنڈی کردیں.
(۱۹۵۲، رفیق تنہائی، ۱۴۰).