کہاں وہ ناز بردار تمہارا جو تمہیں پیادہ نہ چلنے دے اور کاندھے چڑھاوے ۔
(۱۷۳۲ ، کربل کتھا ، ۷۲) ۔
ناز بردار یہاں ہم تو رہے تا لب گور
مرتے مرتے بھی سہیں اون کی جفائیں لاکھوں
یعقوب تھے جن کے ناز بردار
تھا جن کا دلوں میں گرم بازار
ادب کسی مقصد کا اظہار تو کر سکتا ہے لیکن پارٹی لائن کا ناز بردار نہیں ہو سکتا ۔
(۱۹۸۳ ، نئی تنقید ، ۲۸) ۔
اس کے ناز بردار والدین نے اس کی ہر ضرورت پوری کی ۔
(۱۹۹۸ ، قومی زبان ، کراچی ، دسمبر ، ۱۳) ۔