طلب ہے جو غالب طلب گار پر
کرے ناز ہنر وند خریدار پر
گر ناز نوخیزاں پہ میں اے دل کروں تو کیا عجب
پیو کا محبت منج عطا پیری میں نوخیزی کیا
تو کرے ناز اگر ِحسن پر اپنے ہے بجا
کہ بنا کر تجھے خالق نے بہت ناز کیا
تنتی تھی سر تنوں سے جدا دیکھ دیکھ کے
کرتی تھی ناز حشر بپا دیکھ دیکھ کے
دُنیا کے بڑے بڑے شاعر ناز کرتے ہوئے چلے گئے ہیں ۔
(۱۹۰۵ ، مضامین چکبست ، ۷۳) ۔
نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
پروفیسر ہارون خاں شیروانی ۔۔۔۔۔ پر علم و ادب ناز کرتا ہے ۔
(۱۹۸۹ ، نذر مسعود ، ۱۹۱) ۔
ذرا صورت دکھانے میں وہ کیا کیا ناز کرتے ہیں
جو پردہ بھی اوٹھایا ہے تو دروازے کو بھیڑا ہے
کچھ ہنسی آئی تو کچھ آنکھ سے آنسو ٹپکے
ناز کرتا ہوا مجھ سے جو مرا دل آیا
رشک یوسف جو کہا میں نے خطا مجھ سے ہوئی
ناز کرتا ہے سمجھ کر وہ خریدار مجھے