جہود اس بھلانے کوں انکے گیا
وہاں سادہ دل سعدان میں گیا
ہزاروں کِینے قایم مہر میں گردوں کی پنہاں ہیں
نہ کیجو اعتماد اے سادہ دل زننہار اس ٹھگ پر
میں سادہ دل آزردگی یار سے خوش ہوں
یعنی ، سبقِ شوق مُکَرَّر نہ ہو تھا
تُجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
غزل کے عاشقانِ سادہ دل یہ بات بھول گئے ہیں کہ اُردو شاعری کی عظمت صرِف غزل کی مرہونِ مِنَّت نہیں ہے.
( ۱۹۸۴ ، سمندر ، ۹ ).