سادہ رُوہیں ہمیشہ باعِزَّت
آب نس دن محیط گوہر ہے
نہ پُوچھو مُجھ سے اے یاراں دِماغ ان سادہ رُووں کا
سکندر کے تئیں سمجھیں ہیں یہ آئینہ دار اپنا
وہ طِفلِ سادہ رُو لڑکوں میں جو اب گرم بازی ہے
ہزاروں حسرتوں سے یاد کرتا ہوں لڑکپن کو
آپ حُسن کے عاشق تھے . جوان سبزہ آغاز سادہ رُو ، مرد ، عورت سب کے حسن پر آپ کی پسندیدگی کی مہر ثبت ہے.
( ۱۹۳۹ ، مطالعۂ حافظ ، ۱۳۹).