جو کوئی یو کلام سنے گا پڑے گا ، ہور فاتحہ نا پڑے گا تو وہ بے خبر خام ہے.
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۱۰).
کہا پھر زبانِ نبیؐ پر تمام
یہ پہونچا ہے ہم کو خدا کا کلام
(۱۸۸۰ ، قمقام الاسلام ، ۱۴).
اور اگر تم شک میں ہو اُس کلام سے جو اُتار ہم نے اپنے بندہ پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی.
(۱۹۱۷ ، ترجمۂ قرآن ، مولانا محمود الحسن ، ۷)
۲. (قواعد) وہ عبارت جو دو یا دو سے زیادہ کلموں سے مرکب ہو.
جس میں دو کلمے یا دو سے زیادہ ہوں اس کو کلام کہتے ہیں.
(۱۸۶۳ ، انشائے بہار بے خزاں ، ۳)
جب دو یا دو سے زیادہ کلمات ترکیب پائیں تو اس کو کلام کہتے ہیں.
(۱۹۰۴ ، مصباح القواعد ، ۱۶۹).
کلام بات دو یا دو سے زیادہ لفظوں کا مجموعہ ہے ، جو مفہوم کے اعتبار سے مکمّل ہو اور جس میں کوئی ایک بات پوری پوری بیان ہو جائے.
(۱۹۸۲ ، اردو قواعد ، ۷).
۳. وہ علم جس کے ذریعے عقائد کو عقلی دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں ، علمِ کلام.
اساطینِ کلام نے اشاعرہ کے نقش قدم کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کی.
(۱۹۰۶ ، الکلام ، ۲ : ۶۳).
دراصل ذاتِ الٰہیہ کی نفی و اثبات کا مسئلہ کلام و الٰہیات یا خالصاً مذہبی نقطۂ نظر سے اصول و عقائد کا مسئلہ نہیں.
( ۱۹۲۷ ، اردو دائرۂ معار اسلامیہ ، ۳ : ۱۷۳).
۴. نظم ، سخنِ منظوم ، شعر ؛ شاعری.
ختم کرتوں شوقی دعا پر کلام
دُرود بر محمد علیہ السلام
(۱۵۶۴ ، حسن شوقی ، د ، ۱۱۸).
ہرجا ہے ملکِ نظم میں نظم و نسق مرا
ہے سہلِ ممتنع یہ کلامِ ادق مرا
(۱۸۷۴ ، انیس ، مراثی ، ۲ : ۴۴۷).
دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں ... ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا جس کا تمام کلام اوّل سے آخر تک حسن و لطافت کے اعلیٰ درجہ پر واقع ہوا ہو.
(۱۸۹۳ ، مقدمۂ شعر و شاعری ، ۸۹).
اسے بھی اپنا کلام سنانے کا شوق گدگدتا ہے.
( ۱۹۳۵ ، چند ہم عصر ، ۱۶۹).
ان کا کلام اس کثرت سے نہیں چھپتا جتنا چھپ سکتا ہے.
(۱۹۷۹ ، زخم ہنر ، ۲۰).
۵. گفتگو میں آواز کا اتار چڑھاؤ ، لہجہ ، بول چال.
لہجے سے الفاظ پر زور ڈالنا جسے انگریزی میں امفیسس کہتے ہیں اس کا تعلق کلام سے کلمے سے نہیں .
(۱۹۳۴ ، منشورات کیفی ، ۵۷).
۶. عذر ، اعتراض ، حجت.
جدا جدا ہر ایک سیال کو تولنے میں کسی کو کلام نہیں تھا.
(۱۸۳۸ ، ستۂ شمسیہ ، ۳ : ۲۷).
بعض بزرگان اہل سنت و جماعت کو اس کے جواز میں کلام ہے.
(۱۸۷۳ ، مکمل مجموعۂ لیکچرز و اسپیچز ، ۱۲۵).
کہتے ہو تم یہی سزا ہے تری
ہم کو اس میں بھی کچھ کلام نہیں
(۱۹۵۱ ، حسرت موہانی ، ک ، ۲۵۵).
۷. شبہ ، شک.
کس کم سخن نے دیکھ مجھے آہ کی کہ پھر
اپنے بھی چپکے رہنے میں کچھ کچھ کلام ہے
(۱۸۵۱ ، مومن ، ک ، ۱۶۶).
اصول کی صحت میں کلام نہیں .
(۱۹۱۳ ، مضامین ابوالکلام آزاد ، ۳۵)
اس میں کلام نہیں کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے .
(۱۹۸۶ ، مقالات عبدالقادر ، ۱۶)
۸. سوال و جواب ، غرض ، واسطہ.
آدم پڑھی حق کی کلام
دفع ہو گئی آفت تمام
(۱۶۵۴ ، گنج شریف ، ۲۳۶).
جب سے ہوا ہے میرا وہاں سے سلام بند
یارو عزیز و غیر نے بھی کی کلام بند
(۱۸۶۴ ، دیوان حافظ ہندی ، ۲۸).
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
(۱۸۶۹ ، غالب ، د ، ۲۳۶).
(فائدہ) کلام کو بعض نے مونث لکھا ہے.
[ ع : (ک ل م) ].
اہم اطلاع
اردو لغت بائیس ہزار صفحوں پر مشتمل ، دو لاکھ چونسٹھ ہزار الفاظ کا ذخیرہ ہے . اسے اردو زبان کے جیّد اساتذہ نے 52 سال کی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے .
زیر نظر ویب سائٹ انسانی کاوش ہے لہذہ اغلاط کے امکانات سے مبرا نہيں ، آپ سے التماس ہے کہ اغلاط کی نشان دہی میں ہماری معاونت فرمائیں .
نشان دہی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر رابطہ کے ان باکس میں اپنی رائے سے آگاہ کریں .