جو کچھ کلمہ کلام آج ہوا تم سب نے سنا.
(۱۸۱۰ ، اخوان الصفا ، ۴۳).
رہے دوچار ہندوستانی جو معزز عہدوں پر ہیں ان کا ذکر نہیں ، عام سے کلام ہے.
(۱۸۷۰ ، الاخبار ، دہلی ، ۵ جنوری).
تیری قدر و منزلت ختمِ رسل سے پوچھیے
تیری قدر و منزلت میں ہے کسی کو کیا کلام
(۱۸۱۰ ، میر ، ک ، ۱۴۳۱).
مقامِ امن ہے جنّت ، مجھے کلام نہیں
شباب کے لئے موزوں ترا پیام نہیں
(۱۹۰۸ ، بانگِ درا ، ۱۳۳).
ان کی سیاسی بصیرت کے بارے میں کلام ہو سکتا ہے لیکن ان کی ذاتی دیانت شک و شبہ سے بالاتر تھی.
(۱۹۸۵ ، آتش چنار ، ط).
نہ بہری کہ ہو مجھ کو سننا حرام
نہ گونگی کہ ہو بولنے میں کلام