ایک رفیق شفیق ... ہر حال میں شریکِ رن٘ج اور راحت سمجھے تھے کہ تنہائی میں اسی سے جی بہلے گا اس کا بھی ساتھ چھوِٹ گیا.
( ۱۸۹۰ ، فسانۂ دلفریب ، ۴۰ )
تو مری قسمت کا تارا ، میں تری زُلفوں کا پُھول
چھوٹ سکتا ہے کہیں یہ ساتھ آسانی کے ساتھ
( ۱۹۷۹ ، جزیرہ ، ۱۲۹ )