نہ یہ منکوحہ تھی نہ ممتوعہ
دوستی سے ہمارا ساتھ دیا
ساتھ مجھ سر گشتہ کا دے جوشِ وحشت میں جلال
لائے یہ طاقت کہاں سے چرخِ گرداں پاؤں میں
یہ دوسری بات ہے کہ قسمت میرا ساتھ دے رہی ہے.
( ۱۹۴۷ ، فرحت ، مضامین ، ۶ : ۵۲ )
مرد بھی مُختلف سازوں سے ان کا ساتھ دیتے تھے.
( ۱۹۱۶ ، گہوارۂ تمدن ، ۱۴۹ )
ہم راہ نہیں کہ ساتھ دیجے
دُکھ بوجھ نہیں کہ بانٹ لیجے