فرخ اپنے ساتھ والوں کے ایک مُختصر اور مہذب گروہ کے ساتھ آیا.
( ۱۸۹۳ ، دلچسپ ، ۲ : ۱۶۶ )
ہمارے ساتھ والے سب اس دنیا اُٹھ گئے ایک ہم ہیں کہ زِندہ ہیں . عاقبت کے بوریے سمیٹ رہے ہیں.
( ۱۹۶۹ ، مہذب اللغات ، ۶ : ۲۹۰ )
واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بٹ کی دوکان بند ہے ساتھ والے دوکاندار سے پُوچھا تو اس نے کہا ” نماز پڑھنے گیا ہے“.
( ۱۹۵۵ ، منٹو ، سر کنڈوں کے پِیچھے ، ۱۵۵ )
محمود صاحب آپ کو ساتھ والے کمرے میں مل جائیں گے.
( ۱۹۶۲ ، تدریسِ اُردو ، ۳۷ )