میں پیانو پر جو ناشتے کی میز کے قریب ہی رکھا ہوا ہے کوئی راگ چھیڑ دیتا ہوں.
(۱۹۴۴ ، آدمی اور مشین ، ۲)
کہیں رات کے وقت کولھو پر بیٹھا دیپک راگ چھیڑ رہا تھا.
(۱۹۳۷ ، قصص الامثال ، ۲۳۶)
راگ اور کوئی چھیڑ کہ لذّت بھی مِلے
بیکار ہیں سب بادِ مُخالف کے گِلے