روز دو چار کے رونے کی صدا آتی ہے
راگ لاتا نہیں یہ چرخِ ستمگر کس دن
فلکِ فتنہ ساز راگ لایا یہ اپنی دُھن میں بیٹھے رہے.
(۹۴۰ ، ہم اور وہ ، ۴۷)
واں جا کے وہ سوچی اس کو بے لاگ
لے چلیے تو راجہ لائے گا راگ
وجد میں آ کے راگ صوفی لائیں
شیخ و زہاد اپنی اپنی گائیں
اچھّا میں راگ لایا کہ دِیوانہ ہو گیا
گاتے ہی گاتے ختم سب افسانہ ہو گیا