گویّوں کا دھن تھا راگ مالا
کہ جب جو راگ چاہا سو نِکالا
کہا کلازنگ گریں تیرے سبھی اعدا یوں
راگ مالا میں کھنچی جیسے کہ ہو صورتِ نٹ
وہ ہم کو کوسیں گے کہ کہاں کا راگ مالا چھیڑا جس کا اور چھور نہیں.
۱۹۳۶ ، ریاض خیر آبادی ، نثر ریاض ، ۱۴۸)
چھوڑو یہ راگ مالا جوانی کی باتیں سنو.
(۱۹۵۰ ، گویا دبستان کُھل گیا ، ۲۰۰)
مگر میں نے نہ اس پر ہاتھ ڈالا
کہ تھا وہ اور ہی کُچھ راگ مالا