برسات سر پہ آئی جو کرنا ہے شیخ جی
کرلیجے جلد گُن٘بدِ دستار کا علاج
کہے ہے شمع پروانے سے محفل میں یہ رو رو کر
چلا آتا ہے اے دل سوز سر پر وقت رُخصت کا
یہاں شادی سر پر آگئی.
(۱۸۲۴ ، انشائے بشیر ، ۱۶۷)
مرنے کے بعد برم راکس ہونگا تمہارے سب کے سروں پر آ کر کھیلوں گا.
(۱۸۹۱ ، طلسمِ ہوشربا ، ۵ : ۷۳۰)
اب کہ وہ جاتے ہیں اور تمہارے سر پر آتے ہیں تو میں بھی اس قدر لِکھنا مناسب جانتا ہوں کہ درحقیقت وہ نہایت تنگی میں ہیں.
(۱۸۸۶ ، خطوطِ سرسیّد ، ۱۲۷)
اُڑائی ہے وہ خاک وحشست میں یارب
مرے سر پہ آئیں زمینیں اچھل کر
جو کُچھ سر پر آئے گی ان کی خاطر سے میں اکیلے بھگت لوں گی.
(۱۹۰۲ ، ہم خرما و ہم ثواب ، ۱۰۲)
ہندوستان کے سَر پر آئی ہوئی بلا ٹل گئی تھی.
(۱۹۸۲ ، آتشِ چنار ، ۷۲۱)