کیا ہور کرتا کرے گا سو ہوئے
تیرے باج ہرگز کرے نا سو کوئے
غفار کا کیا معنا ، گناہ نا بخشے تو غفّار کوں کہوانا.
(۱۶۳۵، سب رس ، ۳۲).
گر نامِ عاشقی ترے نزدیک ننگ ہے
کریے نہ مجکو قتل تو پھر کیا درنگ ہے
ناچار ہم تو تجھ بِن جی مار کر رہیں گے
پر اس روش کو تیری یہ لوگ کیا کہیں گے
دلِ ناداں ، تجھے ہوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
کیا کر گیا اک جلوۂ مستانہ کسی کا
رُکتا نہیں زنجیر سے دیوانہ کسی کا
سبزہ و گُل ، کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
باندھی نیّت رات تو دل بول اُٹھا
بال بچے صبح کو کھائیں گے کیا
اے ماما کیا ارادے سیں آج تم میرے محل میں آئی ہو.
(۱۸۰۰، قصۂ گل و ہمرمز ، ۵).
اٹھانے کو رکھا ہے لاشہ کسی کا
یہ کیا وقت ہے آئنے آرسی کا
ایک شور و فغاں اطرافِ کوفہ سے بلند ہوا ... میں اوس سے پوچھا : یہ کیا شور ہے ؟.
(۱۷۳۲، کربل کتھا ، ۲۳۹).
یہ کیا خیالِ خام کہ ہم سا حسیں نہیں
دنیا میں سینکڑوں ہیں فقط اک تمہیں نہیں
بیٹھا تھا کیا مزے میں ترے پاس بوالہوس
آتے ہی میرے دیکھیو کیسا وہ کٹ گیا
بحرِ غم میں اک آشنا کے لیے
میں نے کیا ہاتھ پاؤں مارے ہیں
اس بات پر تم کو حیرت بھی آتی ہے کہ قادر قیوم نے کیا آفتاب کو قدرت عطا کی ہے کہ آن کی آن میں جہان میں اجالا کر دیتا ہے.
(۱۸۹۰، جغرافیۂ طبیعی ، ۱ : ۱۵).
دمِ آخر وہ چلے آتے تو احساں ہوتا
مشکلِ نزع کا کیا مرحلہ آساں ہوتا
تو کیا سمجھتا ہے ہم کیا کہتے ہیں.
(۱۸۹۹، ہیرے کی کنی ، ۷۳).
شوخی ، ادا ، حجاب ، تجاہل ، دغا ، فریب
سب کچھ ہے ایک کیا میں ستم کیش کیا نہیں
لو سیَدِ مظلوم کے دلدار کو مارا
مارا اسے کیا احمدِ مختار کو مارا
اول الذکر کو شریف اور آخر الذکر پولیٹیکل اور ترکوں کا کیا بلکہ مسلمانوں ہی کا سخت دشمن ہے.
(۱۹۲۰، برید فرنگ ، ۲۴).
اب کیا دیکھتے ہیں کہ روشنی کی چمک سے درگاہ جگمگا رہی ہے.
(۱۸۸۹، سیرِ کہسار ، ۱ : ۴۴).
گھوڑا کیا ہے بجلی ہے.
(۱۹۷۳، جامع القواعد ، ڈاکٹر غلام مصطفےٰ ، ۳۶).
شرحِ حالِ دلِ عاشق وہ سنے کیا
اے ستم گار تو یہ گفتار سنا یا نہ سنا
غیرتِ یوسف ہے یہ وقتِ عزیز
میر اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا
یہ کیا انہیں پہ لطف و عنایت ہے دم بہ دم
معلوم ہو گیا انہیں پیارے نہیں ہیں ہم
اتار لی سرِ بازار جس نے رخ سے نقاب
حجاب آئے اسے سو میں کیا ہزار میں کیا
اگر وہ شوخ محبت کے گھر میں آ جائے
تو اور کیا ہے مگر جان و دل نثار کرے
اگر اس دم میرے ساتھ کچھ باتیں کرے تو کیا خوش ہوں.
(۱۸۰۲، ہفت گلشن ، ۲۲).
بات پوری وہ کر نہیں سکتے
زور ہے کیا نزاکتِ لب کا
وہ ہے اِسراف اور وہ کیا
رسمی کاموں میں صرفِ بے جا
کچھ نہ پوچھو کہ ان انقلابات میں کیا کچھ جاتا رہا.
(۱۹۹۲، افکار ، کراچی ، اپریل ، ۲۶).
رنگِ گل و بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں
کیا قافلہ جاتا ہے جو تُو بھی چلا چاہے
جانتے ہیں تمھارے شیدائی
تم نہیں جانتے کہ کیا ہو تم
دل آہِ سحر گاہ کے ہمراہ نکل چل
کیا ساتھ ہے کیا ساتھ ہے کیا ساتھ ہے واللہ
زینب سے شاہ کہتے تھے کیوں بنتِ مرتضیٰ
چودہ پہر کی پیاس میں عباس کیا لڑا
چومیے کیوں نہ اس کے ہاتھوں کو
کیا مٹاتا ہے کیا بناتا ہے
بانو نے کہا دونوں کی عمریں ہیں ابھی کیا
نے گھر سے وہ نکلے نہ کوئی معرکہ دیکھا
اس کی آمدنی کیا ، زیادہ سے زیادہ پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار.
(۱۹۴۳، دلی کی چند عجیب ہستیاں ، ۸).
صفت کیا کروں تیرا
سو جیب ہووے تو تھوڑا
تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے
یوں ہی خدا جو چاہے تو بندے کی کیا چلے
سُن اے غارت گر جنسِ وفا سن
شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا
اب نہ دل ہی ہے نہ صبر و طاقت و ہوش و حواس
دور تھے تم ہم سے جب تک پاس اپنے کیا نہ تھا
اگر اس کو ذرا بھی شبہ ہو جائے تو پھر وہ کس قدر بگڑے گا ، لوگوں سے کیا کیا کہے گا.
(۱۹۶۹، افسانہ کر دیا ، ۲۲۹).
لا علاج کوں کیا علاج.
(۱۶۳۵، سب رس ، ۴۵).
پھر مجھے کیا غم کسی بے درد کی بیداد کا
حق تعالیٰ سننے والا ہے اگر فریاد کا
گر کِیا ناصح نے ہم کو قید ، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چُھٹ جاویں گے کیا
وہ لُچّا ہے ، کیا اس کی اوقات ہے
کمینہ ہے ، پاجی ہے بدذات ہے
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
مرے سمجھانے کو تو ناصحا تشریف لائے ہو
اسے جا کر اگر کچھ آپ سمجھاتے تو کیا ہوتا
کیا شاعری میں حقِ تَلَمُّذ ادا کیا
پہلا قصیدہ ہجو میں استاد کی لکھا
ان کا کیا وہ تو ہیں ہی جنگلی ، وحشی ، بن مانس لوگ.
(۱۹۵۶، آگ کا دریا ، ۷۲۵).
قسم کھاتے ہو میرے سر کی جھوٹی
اجی جاؤ بھی جھوٹوں کی قسم کیا
رنج کیا رنج کہ جس کی نہیں اکچھھ اصل و نمود
شکوہ کیا شکوہ کہ جس کی کوئی بنیاد نہ ہو
ان سے بیان کیجیے حالِ خراب کیا
سو بار بھی کہو تو وہاں سے جواب کیا
ہمیں کیا جو پھرتے ہو تم عرش پر
کبھی جلوہ گر بام پر بھی تو ہو
اگر کوئی جوگن کی کرتا ثنا
تو کھا رشک کہتا کہ پھر تم کو کیا
کس کا کعبہ ، کیسا قبلہ ، کون حرم ہے ، کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
بے رحم تجھ کو حالتِ دل کے بیاں سے کیا
تو بے وفا ہے تجھ کو مری داستاں سے کیا
نہ ٹوکو ہمیں خضر لو راہ اپنی
تمھیں اس سے کیا ہم کہیں جا رہے ہیں
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا
بیمارِ عشق ہوں مرا کرتا ہے کیا علاج
اے چارہ گر سمجھ کہ مرض ہے یہ لا علاج
آرزو اپنے کیے کو بھگتو
اب پچھتائے سے ہونا کیا ہے
فقط ایماں ہی کیا پامال ہیں ایماں شکن لاکھوں
دلوں کی وہ متاعِ کافری کیا ہو گئی آخر
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرماویں گے کیا
واہ کیا کہنا ہے سب کچ سُن گئے
پھر تجاہل سے ہوا ارشاد ’’ کیا ‘‘
ہزاروں ملچھ (مسلمان) مارے جائیں مجھے کیا ! ہاں روز ایک کنور کو گدَی پر بٹھائیں.
(۱۹۳۹، افسانۂ پدمنی ، ۱۱۷).
لطفِ ہجراں نہ رہا دل ہی مرا بیٹھ گیا
تم مرے پہلو سے اے رشکِ قمر کیا اٹھے
بسنت رُت کیا جہاں میں آئی پیامِ دورِ بہار آیا
نظر ہے مستِ شرابِ جلوہ کہ روے گل پر نکھار آیا
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
جی رات لبوں پر آ رہا تھا
مرنے میں ہمارے کیا رہا تھا
رندوں کا ہے یہ واعظِ منبر نشیں سے قول
ناقص ہے جنسِ فائدہ اونچی دکاں سے کیا
اس کے پاس کیا رکھا تھ اجو چچی کی شرط پوری کرنے کی حامی بھرتا.
(۱۹۲۶، شرر ، مضامین ، ۳ : ۱۵۲).
اس تاج و تخت کا مالک بننے سے پہلے میں کیا تھا ، ایک بے یار و مددگار لڑکا.
(۱۹۵۶، چنگیز ، ۱۳).
آہ کو تو مسوس بھی ڈالوں
کیا چھپاؤں یہ چشمِ خوں مالا
رونے نے میرے بند کیا کاروبارِ دہر
ساون کی ہے جھڑی کوئی نکلے مکاں سے کیا
جب یہ عالم ہے تو ہم رشوت سے کیا توبہ کریں
توبہ رشوت کیسی ہم چندہ نہ لیں تو کیا کریں
سب خاموش تھے ، جس کا پورا خاندانن ختم ہو گیا ہو اسے کیا تسلّی دی جا سکتی ہے.
(۱۹۹۲، افکار ، کراچی ، جون ، ۵۹).
[ پ : # ؛ # ]