لجاویں تو بھر بھر جو لک جام جم
تو کیا کچھ او دریا سوں ہووے گا کم
ہوا ہے کیا کچھ اہلِ بیت پر سودا نہ دم مارا
خدا بن کون ہے آگاہ آدابِ محمدؐ کا
گرچہ کچھ بی نہیں ہوں میں لیکن
اس پہ بھی کچھ نہ پوچھو گیا کچھ ہوں
اکبر خدا کے فضل سے کیا کچھ نہیں یہاں
کمّل نہیں کہ پاس مرے بوریا نہیں
ایک ظریف نے پوچھا ، کیا کچھ اجرت ملتی ہے.
(۱۹۳۰ ، اردو گلستان (ترجمہ) ، ۱۳۹).
کچھ نہ پوچھو کہ انا انقلابات میں کیا کچھ جاتا رہا.
(۱۹۹۲ ، افکار ، کراچی ، اپریل ، ۲۶).
مُنھ کر بھی میری جانب سوتا نہیں کبھو وہ
کیا جانوں اس کے جی میں ہے اس طرح سے کیا کچھ