اے خیالات جہاں کسی خرابی لائ تم
کنج خلوت پہل تھا اب ہوگیا بازار دل
درّا نہ عدو بے ادبانہ ہوئے داخل
گھر فاطمہ کا ہوگیا بازار حُسینا
روز اول کہ ترا کوئی خریدار نہ تھا
یہ ترا چرچۂ و یہ شور بازار نہ تھا
ہماری آہوں سے سینے پہ ہوگیا بازار
ہر ایک زخم کا کوچہ جو تنگ تھا آگے
اس مقام پر ہر شنبے کو بازار ہوتا ہے .
( ۱۸۸۹ ، رسالہ ’ حسن ‘ ۲ ، ۷ : ۵۰ )