تُجھ برہ کی کھڑگ تے جی بھاگیا ہے جی لے
دایم وو زرد رُو ہے جوں رن٘گ استرک کا
اے ہاشمی دوتن نے برہا مجھے دئ ہے
اُن زرد رو ہوے بن نا مجھ نکال ہوئے گا
زرد رو ہے جو کیا ہے فکرِ تسخیرِ طلا
مت ہو اے وحشی صفت زنہا نخچیرِ طلا
دونوں جہاں میں زر کی طرح ہو گے زرد رو
روکا جو دستِ خیر کو تقسیمِ سیم سے
میں ساس نندوں سے لڑی خاوند سے چھوٹی باپ کے سامنے زرد رو ہوئی .
(۱۹۰۰ ؟ ، خورشید بہو ، ۱۵۸).
مجھ کوں کہنی حقیقت ہوئی دوبھر
زرد رُو کر کے لے چلا خنجر
اوس کے وزیر سراسیمہ و پریشان زرد رو ، اُسے فوراً بھاگ جانے کو کہہ رہے تھے .
(۱۸۹۳ ، بست سالہ عہد حکومت ، ۱۱۱)
ہر طرف خاموش گلیاں زرد رُو گونگے مکیں
اُجڑے اُجڑے بام و در اور سُونے سُونے شہ نشیں
نکل جا اے رقیبِ زرد رو بس اپنے آگے سے
صنم ہے اور ہم ، ساقی ہے اور عشرت کی محفل ہے
خواجہ ، زندگی میں اِس زرد رو کے قصر سے نکلنا دشوار ہے .
(۱۹۰۰ ، طلسمِ نوخیز جمشیدی ، ۱ : ۳۰۹)
چمن میں نرگس کو کیا مرض ہے جو زرد رو ہوتی جاتی ہے یہ
وگر نہ گل کی مزاج داں تو صبا بھی بادِ شمال بھی ہے
زرد دو ، کمزور نحیف ، آنکھوں پر عینک ، ہاتھ میں کوئی کتاب جسکی وہ بے دلی سے ورق گردانی کر رہی ہے .
(۱۹۶۷ ، پسِ پردہ ، میرزا ادیب ، ۱۹۹)