ہوئے بھوت انہیں زرد غم تے مگر
سو چندر سوں سونا پڑیا سب نگر
ہوتے ہیں آہنی دل مل تجھ سیں زرد جوں زر
پارس عاشقوں کوں تجھ پانو کا پرسنا
گلعزاروں کی جو محفل میں گیا ہو گُلِ تر
ہوگئے زرد جو دو چار تو دو چار سفید
”شوق“ ہی آج آ پڑے ، رہ گئی ہو کے زرد میں
اُن کی شبیہ کو لیے جھاڑ رہی تھی گَرد میں
چاند سَنولا گیا پھولوں کی قبا زرد ہوئی
اس کی تشبیہ بھی ہم سوچ نہ پائے اُبکے