سارا گھر ’’تم پر چھوڑ کر‘‘ مہمان داخل دو روٹیاں میں بھی کھالیتی ہوں ۔
(۱۸۹۹ ، رویائے صادقہ ، ۵۹) ۔
دنیا کا مالک کوئی اور ہے ، بیش بریں نیست کہ میں بھی مہمان داخل اس میں اُترا ہوں ۔
(۱۹۰۶ ، الحقوق ولفرائض ، ۱ : ۲) ۔
نکاح سے دو تین روز پیشتر مہمان داخل آکر مراد آباد میں معظم صاحب اور عبدالسلام صاحب ۔۔۔۔۔۔ کے مکانوں میں بیٹھ رہا ۔
(۱۹۳۰ ، خطوط مولانا محمد علی جوہر ، ۲۱۹) ۔