گلشن رخسار میں او جا رہے
نظر کی مہمانداری خوب کیئے
زبان خلقت کی حاتم کی تعریف سے ہرگز خاموش نہیں رہتی اور اوس کی نکوکاری اور مہمانداری اپنے دل سے فراموش نہیں کرتی ۔
(۱۸۰۳ ، گنج خوبی ، ۹۲) ۔
ابراہیم بعد واقعہء ذبح شام میں جلوہ فرما ہوئے اور مہمانداری میں مصروف ہوئے ۔
(۱۸۴۵ ، احوال الانبیا، ۱ : ۲۲۱) ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حیثیت سے ان کی مہمان داری فرماتے تھے ۔
(۱۹۱۴ ، سیرۃ النبیؐ ، ۲ : ۶۰) ۔
میں نے دل کھول کر مہمان داری کرنے کی صلاح دی تھی ۔
(۱۹۴۷ ، فرحت اﷲ بیگ ، مضامین ، ۴ : ۱۶۹) ۔
مہمان داری بھی تو ماشاء اﷲ سے ہمارے ہاں بہت رہتی ہے ۔
(۱۹۹۰ ، چاندنی بیگم ، ۴۱۴) ۔