کبھی تو موم ہوجاتے ہو جب میں گرم ہوتا ہوں
کبھی میں سرد ہوتا ہوں تو تم بھڑکاؤ کرتے ہو
پڑی تھی دھوپ میں وہ لاش ِمظلوم
کسو کا دل تلک ہوتا نہ تھا موم
میں وہ ہوں آتش قدم جس سے پگھلتے ہیں پہاڑ
موم ہو جاتا ہے جو آتا ہے پتھر زیرپا
دل گھڑی کی جادو بھری تقریر سے موم ہوگیا ۔
کیسا کیسا لوہا لاٹھ آدمی ناری کے سامنے موم ہو جاتا ہے ۔
(۱۹۸۵ ، قصہ کہانیاں ، ۴۶) ۔
گر شمع کو پروانے کے جلنے کا نہیں غم
کیوں موم ہوئی جاتی ہے ہر وقت پگھل کر
دیکھ مجھ کو موم ہوگی ہاتھ میں قاتل کے تیغ
آب کر ڈالا اسے جس کا جگر فولاد تھا
سوختہ ساماں جو کوئی خاک جل کر ہو گیا
موم تیرا بھی دل مضطر پگھل کر ہو گیا