بھلا تم نقدِ دل لے کر ہمیں دشمن گنو اب تو
کبھو کچھ ہم بھی کر لیں گے حسابِ دوستاں در دل
آپ چاہیں دیں ٹکا نہیں؟ ـ ـ ـ "حساب دوستاں درد دل" لیکن صلاح حضور ہی نے دی تھی .
(۱۸۸۰، فسانہ آزاد ، ۱: ۱۳۹ )
وہ بدیہ سر پہ رکھ لینے کے ہم قابل سمجھتے ہیں
اسے تو ہم حسابِ دوستاں در دل سمجھتے ہیں
بنا بریں کہ انتظام درہم برہم اور حساب دوستاں در دل کا معاملہ تھا
( ۱۹۸۴، گرد راہ ، ۶۹ )