گھڑی بھر ایک جاگا دونوں مست ہوکر پڑیں.
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۵۷).
گھڑی بھر اس نے پھانکے تو اصول پھر جا کے پیلی ہوئی
کسے کوں گنہ سب کاری ہوا آزار چوری سوں
جب گھڑی بھر دن باقی رہ جاتا.
(۱۸۷۳ ، مطلع المجائب (ترجمہ) ، ۲۶۸).
کٹے چَین سے زندگانی ہماری
جو سن لو گھڑی بھر کہانی ہماری
آپ نے گھڑی بھر بھی آرام نہیں ، مایا.
(۱۹۸۷ ، آخری آدمی ، ۳۳).