کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینہ میں ہوگی سانس اَڑی دو گھڑی کے بعد
اس قیدِ تنہائی میں آکر گھڑی دو گھڑی کے لیے اس سے ملے.
(۱۹۱۰ ، معرکۂ مذہب و سائنس ، ۲۴۸).
کیا جھیلنی ہے دل کو گھڑی دو گھڑی کے بعد
کیا علم اور کیا ہو گھڑی دو گھڑی کے بعد
اس کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ پشپا کے پاس گھڑی دو گھڑی کے لیے آبیٹھے.
(۱۹۹۱ ، اردو ، کراچی ، اپریل تا جون ، ۳۰).