بلا سے گر نہیں رکھتے ہتو ہم زر ہتھیلی پر
خدا کی راہ میں رکھتے ہیں اپنا سر ہتھیلی پر
میں تو اسکے سامنے ہتھیلی پر سر رکھ کے آئی ہوں ۔
(۱۸۹۷ ، طلسم ہفت پیکر ، ۳ : ۷۷۶) ۔
کریں ساکھا یہ دل میں ٹھان لی بانکے دلیروں نے
ہتھیلی پر رکھا سر ہاتھ دھو کر جان مضطر سے
علم و ادب کا یہ ، ُجو یا ہتھیلی پہ سر رکھے ہوئے قزلباش سپاہیوں سے فارسی لغات و محاورات کی تحقیق و تصدیق کرتا پھر رہا تھا ۔
(۱۹۵۸ ، ہندوؤں میں اردو ، ۱ : ۱۲۰) ۔
ہم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر نکلیں گے ۔
(۱۹۹۰ ، اکابرین تحریک پاکستان ، ۷۵۸) ۔