پھینک کر شیشہء دل ہاتھ سے کہتا ہے وہ مست
کیا بنانا تھا ہتھیلی کا پھپولا ہم کو
طاہر ، آپ دونوں ماں بیٹیوں سے تو میں عاجز آگیا ہوں ، شمع کو ہتھیلی کا پھپھولا بنادیا ہے ۔
(۱۹۳۹ ، شمع ، ۵۴۵) ۔
گھر کا کام ہم خود کرتے ہیں ، اس کو کیسے ہتھیلی کا پھپھولا بناکر رکھیں گے ۔
(۱۹۶۱ ، ہالہ ، ۱۹) ۔
مرزا صاحب نے سدا بیوی کو ہتھیلی کا پھپھولا بناکر رکھا تھا ۔
(۱۹۸۸ ، صدیوں کی زنجیر ، ۴۰) ۔
بزم میں پاتا نہیں میں ساقی گلفام کو
جانتا ہوں میں ہتھیلی کا پھپھولا جام کو