ہوا آئی ہے لے کے بھی تھنڈ کالا
پیا بن سنتاتا (ستاتا) مدن بالے بالا
یہ پتا کوچے کا اس حور کے سن رکھ قاصد
لو نہیں چلتی ہے جنت کی ہوا آتی ہے
کوٹھری میں بیٹھا ہوں ، ٹٹی لگی ہوئی ہے ، ہوا آرہی ہے ، پانی کا جھجر دھرا ہوا ہے ، حقہ پی رہا ہوں ، یہ خط لکھ رہا ہوں ۔
(۱۸۸۰ ، آب حیات ، ۵۱۳) ۔
سرد آہیں دے رہیں ہیں لطف کیا برسات میں
ٹھنڈی ٹھنڈی خوب آتی ہے ہوا برسات میں
جب ذرا تیز ہوا آتی ہے
خشک پتوں کی صدا آتی ہے
محبت کی آئی جو دل میں ہوا
وہاں سے اسے لے اڑی دلربا
جام سنجر کے سر میں ہواے سلطنت آئی ۔
(۱۸۹۷ ، تاریخ ہندوستان ، ۴ : ۸) ۔
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں
کبوتر کی ہوا آئی تو لے کر ہاتھ میں چھیپی
اوڑائے خوب ہی پٹھے ابے باوا ابے باوا
ایک ایسی بھی ہوا آئے گی
جو ہر اک زخم کو بھر جائے گی
بلدیہ کے افسروں کو یہ شکایت عام ہے
کب سے اس دفتر میں رشوت کی ہوا آئی نہیں
نفرت ہے ہم نشینی احمق سے اس لیے
کرسی کی اس طرف بھی نہ آئے ہوا کہیں