سو اب ایک کو تو لے آتی ہوں میں
ہوا دوسرے کو بتاتی ہوں میں
اگر تیری مرضی ہو تو شہزادے کو میں لے آوں اور پری زاد کو ہوا بتاؤں ۔
(۱۸۰۲ ، نثر بے نظیر ، ۱۲۶) ۔
اب در پہ اپنے ہم کو رہنے دے یا اُٹھا دے
ہم سب طرح سے خوش ہیں ، رکھ یا ہوا بتادے
غیرت کو کہاں ہوا بتا دی
چڑیا صدقے کی تھی اوڑا دی
جہاز پر سوار ہونے آیا تو جہاز والوں نے ہوا بتائی ، لنگر اٹھایا تو پھر جہاز کی شکل نظر نہ آئی ۔
(۱۹۰۱ ، الف لیلہ ، سرشار ، ۴۹۳) ۔
آنے کو لکھ کے چند بار پھر وہ ہوا بتا چکے
ہو بہت ان کی زندگی کیا وہ ابھی ستا چکے